عقل و شعور جس کی بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا، یہی عقل ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس دنیا میں کیوں پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمارا مقصد حیات کیا ہے۔۔۔ ؟
بے شک اسلام کا حقیقی تصور عبادت و بندگی ہے۔ عبادت سے مراد خشوع و خضوع کے ساتھ اﷲ رب العزت کی تعظیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت و فرماں برداری کرنا ہے۔
یوں تو فرشتے بھی اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں مگر نفس کے ہوتے ہوئے نفس کو مار کر اور اسے لگام دے کر اﷲ کے حضور جھکنے کا لطف ہی الگ ہے اور یہ لطف ملائک کے حصے میں نہیں آیا، بل کہ انسان جسے خلیفہ بنایا گیا، نفس سے نوازا گیا اہل نفس ہونے کی بنا پر اسے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور پھر اس کے اختیار کرنے والے کے لیے بے پناہ اجر و ثواب کی نوید بھی سنائی گئی۔ اگر تقویٰ کو عبادت کا حُسن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
تقویٰ کیا ہے ؟ اگر آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو انسان کا اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی سے باز رکھنا تقویٰ ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر اس عمل سے خود کو روکنا جسے اﷲ نے ناپسند فرمایا وہ تقویٰ کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ (سورۃ الحشر)
سورۃ الطلاق میں تقویٰ اختیار کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے، مفہوم: ’’جو شخص اﷲ کا تقویٰ اختیار کرے گا، اﷲ اس کے لیے راستہ پیدا کر دے گا اور اسے وہاں سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ تقویٰ اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ظاہر اور باطن میں تضاد نہ ہو۔ عبادت میں اخلاص سے مراد کسی کے اعمال کا ہر طرح کی آمیزش اور ملاوٹ سے پاک ہونا ہے۔ اخلاص کے بغیر عبادت بے جان ہے۔ اخلاص کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس نام کی نسبت سے ایک پوری سورت سورۃ اخلاص کا نزول فرمایا جس سے اخلاص کا واضح ایک مفہوم سمجھ میں آتا ہے، مفہوم: ’’اﷲ کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرا کر ملاوٹ نہ کرو۔‘‘ اسی طرح سورہ الزمر میں بھی اﷲ نے اپنے نبیؐ کی مبارک زبان سے اپنا کلام پڑھواتے ہوئے ہمیں پیغام پہنچایا، مفہوم: ’’خدا کی عبادت کرو (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک سے) خالص کرکے۔ ‘‘
اخلاص کا تعلق عقیدے سے ہے اور عقیدہ دل کی نیّت کا آئینہ ہوتا ہے، جو انسان کی نیّت کی عکاسی کرتا ہے۔ خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنا ہی دراصل اخلاص کے ساتھ عبادت کرنا ہے۔ عبادت کی لذت خشیت الٰہی سے ہے، یہ وہ لذت ہے جس کا مزہ موت کا مزہ چکھنے سے قبل ہی محسوس کیا جا سکتا ہے، اس کا لطف تو جنّت میں بھی نصیب نہ ہوگا۔ کیوں کہ بہشت میں نہ کسی عذاب کا خوف ہوگا نہ کسی جہنّم کا ڈر۔ جنّتی ہر قسم کے خوف سے آزاد ہوگا۔
خشیت خوف کو کہتے ہیں اور خشیت الٰہی سے مراد اﷲ کا خوف ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ڈر انسان کے دل میں ایک طرف خلوص کا بیج بوتا ہے تو دوسری طرف اسی بیج سے تقویٰ کے شجر کی نشو و نما بھی کرتا ہے۔ خشیت الٰہی بے شک دل سے گناہوں کے میل کو دھو ڈالتا ہے۔ خلوت میں کی گئی وہ توبہ جس میں انسان اﷲ کے عذاب سے ڈر کر اس کی طرف لوٹ آئے جس میں خوف الٰہی کے باعث انسان آئندہ گناہوں سے کنارہ کشی کرنے کی نیّت کرلے ایسی توبہ عبادت کا ایک خاص درجہ رکھتی ہے۔ اﷲ کو ایسی توبہ بہت پسند ہے جس طرح دعا ایک عبادت ہے بالکل اسی طرح توبہ بھی ایک عبادت ہے۔
ایسی توبہ جس کی کونپلیں خشیت الٰہی کے بیج سی پھوٹتی ہوں انسان کی تقدیر کا پانسہ پلٹ سکتی ہیں۔ کیوں کہ اﷲ نیّت، فریاد، دعا اور اعمال کو دیکھتے ہوئے بھی انسان کی تقدیر بدلنے پر قادر ہے۔ جس انسان کو ہمیشہ یہ خوف رہے کہ اﷲ دیکھ رہا ہے، وہ خود کو گناہوں سے بچانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور یہی تو متّقین کی نشانی ہے کہ وہ خود کو شر سے بچانے کے کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ اور یہی مسلسل کوششیں وہ گرہیں ہوتی ہیں جن سے نفس کو لگام ڈالی جاتی ہے اور بے شک اہل تقویٰ کا نفس بے لگام نہیں ہوتا کہ فوراً سے شیطان کے بہکاوے میں آجائے، ابلیس خبیث کو بھی اس پر اچھی خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔
انسان اپنی عبادت کو کس طرح خالص بنا سکتا ہے؟ کیسے وہ ایمان کی لذت (حلاوت) کا مزہ چکھ سکتا ہے اور کیسے وہ اپنے نفس کو اﷲ کے غضب سے ڈرا کر جہاد کرسکتا ہے۔ خلوص سے کی گئی عبادت کی پہلی سیڑھی نیّت ہے اور اگر انسان کی نیّت ہدایت کے راستے پر چلنے کی ہو، اگر کسی بندے کا ارادہ اﷲ کی رضا کا حصول ہو، اگر کسی مسلمان کی جستجو اﷲ کا قرب ہو، تو اﷲ رب العزت اس پر اپنی رحمتوں کا خاص نزول فرماتا ہے اور اسے ان لوگوں میں چُن لیتا ہے جن کی روحیں اس کے ذکر سے سانس لیتی ہیں، جن کے اعضاء گناہوں کا ارتکاب کرنے سے لرزتے ہیں اور جو اﷲ کی ذرا سی ناراضی سے مضطرب اور بے چین ہو جاتے ہیں۔ پھر اگر ندامت کا ایک بھی آنسو اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے دل کی کسی گہرائی سے توبہ کی دستک بن کر نکل آتا ہے تو عرش ہلا دیتا ہے اور اﷲ اپنی رحمت کے تمام دروازے اپنے اس بندے کے لیے کھول دیتا ہے اور کہتا ہے: ’’مانگ جو مانگنا ہے کہ مجھے حیا آتی ہے اس بندے کو خالی ہاتھ لوٹاتے کہ جو مجھ پر توکل کرکے میرے پاس کچھ لینے آیا ہو اور میں اسے مایوس لوٹا دوں۔‘‘
عبادت میں اخلاص مومن ہونے کی نشانی ہے جب کہ عبادت میں تقویٰ اور خشیت الٰہی بندے کی اﷲ سے محبت کے خاص وہ آئینے ہیں جن میں بندے کی روح کی پاکی اور ریا سے پاک ہر عمل کی شبیہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ اﷲ کو ہماری بے پناہ عبادتوں کی ضرورت نہیں اسے بھلا ضرورت ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ ضرورت تو ہماری ذات سے جُڑی ہے۔
اﷲ کو اپنے وہ بندے بہت پسند ہیں جو خود کو اس کی نافرمانیوں سے روک کر اپنی بے جا خواہشات کا گلہ گھونٹ کے اس کی رضا میں اپنا سکون تلاش کرتے ہیں، جو کبھی اس کے خوف سے تو کبھی اس کی محبت میں اس کے سامنے جھکتے ہیں، روتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے نکلتے خلوص کے موتی ان کی محبت کا ثبوت دیتے ہیں اور بے شک یہی عبادت بہترین اور حقیقی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ دل کی غلاظت کو دھونا ہے تو خشیت الٰہی سے دھو۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے: ’’اگر کوئی شخص اتنا سا بھی روئے کہ پانی آنکھ کے اندر ہو اور اس کی مقدار مکھی کے سر کے برابر ہو تو اس کو بھی جہنّم کی قید سے آزاد کر دیا جائے گا۔‘‘
ڈرو اﷲ سے کیوں کہ جو اس ایک اﷲ سے نہیں ڈرتا وہ ہر ایک سے ڈرتا ہے اور جو صرف اﷲ سے ڈرتا ہے وہ پھر کسی سے نہیں ڈرتا۔
The post خشیت الہی appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2194194/1