ظفر سپل کی اس کتاب فلسفہ ٔ مغرب پر کچھ کہنے سے قبل میں اس بات پر اُس کا شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں کہ اس کی معرفت آج مجھے اپنے دو محبوب لوگوں کو یاد کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ ایم اے اُردو کے دوران مغربی تنقید کاپانچواں پرچہ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی پڑھایا کرتے تھے اور انھی دنوں میں میرا بہت ہی عزیزدوست شمیم اختر سیفی گورنمنٹ کالج سے فلسفے میں ماسٹرز کررہا تھا اور اُسی کی زبان سے میں نے پہلی بار کرکے گارڈ، سپائی نوزا اور وٹگسنٹائن کے نام سنے تھے جب کہ مغربی فلسفے سے ابتدائی تعارف باقر صاحب نے اپنے مخصوص پُر اثر انداز میں کرایا تھا۔
ان درمیان کے پچاس برسوں میں مختلف حوالوں سے ان عظیم اور عہد ساز فلسفیوں کے بارے میں کچھ بے ترتیب معلومات تو حاصل ہوئیں مگر جس سلیقے، ترتیب، آسانی اور مہارت سے ظفر سپل نے ان کی زندگیوں اور کام کا تعارف کروایا ہے اُس کا لطف اپنی جگہ ہے کہ اس کتاب کو توجہ سے پڑھنے کے بعد آپ مغربی فلسفے کے پس منظر یعنی دورِ متکلمین سے لے کر ژاں پال سارتر تک ہر بڑے فلسفی اور اس کے فلسفیانہ افکار اور نظریات پر اعتمادسے گفتگو کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اُردو میں فلسفے کے موضوع پر نسبتاً کم لکھا گیا ہے اور تراجم کے حوالے سے بھی معاملات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔نیاز فتح پوری کے ’’نگار‘‘ سے لے کر کچھ دیگر ادبی رسائل میں گاہے گاہے اس موضوع پر مضامین شامل کیے جاتے رہے ہیں لیکن جس تسلسل سے احمد ندیم قاسمی صاحب نے ’’فنون‘‘ میں فلسفیانہ موضوعات کو جگہ اور اولیت دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور جن تین احباب نے اس کوشش میں اُن کا زیادہ اور مسلسل ساتھ دیا۔
زمانی ترتیب سے اُن کے نام سید علی عباس جلال پوری، محمد ارشاد اور ظفر سپل ہیں اور اب یہ وہی ظفر سپل ہیں جنہوں نے فلسفہ ٔ مغرب کی پوری تاریخ کو اس طرح سے قلم بند کیا ہے کہ کم از کم مغرب کی حد تک فلسفے کی کوئی اہم تحریک ، نظریہ اور فلسفی آپ کے لیے اجنبی نہیں رہتا اس پر ظفرسپل کا شاندار مطالعہ اور جاندار طرزِ تحریر ایسا ہے کہ آپ اسے ایک دلچسپ کہانی کی طرح بغیر رُکے پڑھتے چلے جاتے ہیں حالانکہ نفسِ مضمون میں بیشتر حوالے اپنی بنیاد میں بہت مشکل ادق اوراجنبی ہوتے ہیں۔ کتاب میں زمانی ترتیب کے ساتھ کل 24 فلسفی اس تاریخی انتخاب میں جگہ حاصل کرپائے ہیں جن کے نام کچھ اس طرح ہیں۔
1)دورمتکلمین—سینٹ آگسٹائن، سینٹ فرانسس، سینٹ تھامسن ایکوی ناس، راجر بیکن
2)عہد نشاۃ الثانیہ(سائنس کا اُبھار)— فرانسس بیکن3)عقلیت پسند فلاسفر —ڈیکارٹ، سپائی نوزا، لیبنیز(4)برطانوی تجربیت پسند فلاسفر— لاک، ہیوم
5)جدیدفلاسفر—والٹیئر، روسو، کانٹ، ہیگل، شوپنہار، نطشے، مارکس، برگساں، رسل
6)تین ہم عصر جدید فلسفیانہ تحریکیں— ولیم جیمز، مارٹنرشلک، لڈوک وٹگنسٹائن، کرکیکارڈ، ژاں پال سارتر
ان عظیم فلسفیوں نے جو فلسفیانہ نظام ترتیب دیے یا اپنے افکار سے اس کہانی میں جس طرح سے اپنے کردار کو نبھایا وہ اپنی جگہ مگر ظفر سپل نے اُن کے سوانحی خاکوں، ذاتی زندگی اور بعض کرداری تضادات کو جس خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ اُن کے فکری کارناموں کے ساتھ ہم آمیز کیا ہے اُس کا اپنا ہی مزا ہے کہ انھوں نے جس طرح سے بعض نسبتاً زیادہ مانوس کرداروں مثلاً مارکس، نطشے، شوپنہار،کانٹ اور برٹرینڈرسل کی زندگیوں کے کچھ مراحل کی نشاندہی کی ہے وہ اس قدر دلچسپ، حیرت انگیز اور چونکا دینے والی ہے کہ متعلقہ شخص کے بارے میں عمومی تصورّ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتاہے اور یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ اس طرح کی زندگی گزارنے کے بعد کوئی شخص ایسے تاریخ ساز علمی اور فکری کارنامے بھی سرانجام دے سکتاہے۔
ظفرسپل کی نثر کا ایک انوکھا کمال یہ بھی ہے کہ وہ دو بظاہر ان مل اور بے جوڑ چیزوں کو اس مہارت سے جوڑتے ہیں کہ قاری تصویر اور مصورّ میں فرق کرنا بھول جاتاہے اس کمال فن کے جستہ جستہ کچھ نمونے دیکھئے یقینا آپ بھی میری بات کی تائید کریں گے۔
’’یہ طویل تمہیدی گفتگو میں نے دراصل اس پسِ منظر کو اُجاگر کرنے کے لیے کی ہے جس کی کوکھ سے جدید مغربی فلسفے نے جنم لیا اور جس کا پہلا حقیقی نمایندہ ڈیکارٹ ہے مگر اس سے پہلے فرانسس بیکن کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے اگرچہ فرانسس بیکن کا فلسفہ کئی لحاظ سے غیر تسلی بخش اور ناپختہ ہے مگریہ حقیقت ہے کہ ا س کے خیال اور فلسفے کی پگڈنڈیوں نے جدید فلسفے کی شاہراہ تک رسائی ممکن بنائی‘‘
’’تھوڑا سا فلسفہ الحاد پید اکرتاہے لیکن اس کا عمیق مطالعہ مذہب کی طرف مائل کرتاہے ‘‘
’’انقلاب سے بچنے کا بہتر نسخہ یہ ہے کہ دولت کی تقسیم منصفانہ ہو‘‘
’’مسلم فلسفے کی اور یجنیلٹی کو مشکوک سمجھنے والے احساس کمتری کے مارے ذہنوں کے لیے یہ ایک جواب ہے کہ امام غزالی نے پہلی دفعہ اتھارٹیز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ علت و معلول کا رشتہ ناگزیر نہیں ہے بلکہ تقدیم و تاخیر کا رشتہ ہے‘‘
’’نسلِ انسانی کے خلاف آپ کی نئی کتاب مجھے مل گئی اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں ہم سب کو احمق بنانے کے لیے ایسی ہوشیاری کبھی استعمال نہیں کی گئی یہ والٹیئر اور رُوسو کے تعلقات میں شکر رنجی کی ابتدا تھی‘‘
’’تاریخی سچ یہ ہے کہ عظیم ہیگل کے ساتھ ہی عظیم فلسفیانہ نظاموں کا سلسلہ ختم ہوگیا اب فلسفے نے ایک نئی جہت ایک نئی سمت اختیارکرنا تھی پہلے نظری فکری مباحث فلسفے کا موضوع تھے اب فلسفہ عمل اور وجودی فلسفے نے اس کی جگہ لے لی تو اب مارکس آیا اور اُس نے کہا
’’اب تک فلسفی دنیا کی مختلف طریقوں سے تشریح کرتے رہے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ اس دنیا کو بدلا جائے‘‘
’’تمام حکمران طبقات کمیونسٹ انقلاب کے خطرے کے پیشِ نظر لرزہ براندام ہیں، پرولتاریو تمہارے پاس کھونے کو کچھ نہیں سوائے زنجیروں کے اور جیتنے کے لیے سارا جہان سامنے ہے ، دنیا بھرکے مزدورو، متحد ہوجاؤ‘‘
دنیا میں جہاں جہاں اور جب جب جس نے ظلم کا ہاتھ بلند کیا اس نے رسل کو اپنے دشمن کے رُوپ میں سامنے پایا۔
ہمیں ظفر سپل کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے صرف 240صفحات میں مغربی فلسفے کی پوری تاریخ کو اس مہارت اور خوبصورتی سے محفوظ کر دیا ہے کہ قاری اس کے آخری صفحات تک پہنچتے پہنچتے خود بھی اپنے آپ کو آدھا پونا فلسفی سمجھنے کے مغالطے میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
The post فلسفہ ٔ مغرب appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2202173/268