لاہور سمیت پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں مون سون کی موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پنجاب بھر میں بادلوں کے جم کر برسنے سے موسم سہانا ہوگیا، گرمی اور حبس کا زور بھی ٹوٹ گیا، کئی نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہونے اور بجلی بند ہونے کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہا، یعنی رحمت باران کے ساتھ ساتھ زحمت باراں کا سلسلہ چل رہا ہے۔
مون سون کے موسمیاتی شیڈول کے باوجود ہماری انتظامی مشینری کے رنگ ڈھنگ نہیں بدلے، افسر شاہی بارش، سیلاب، سے ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں کسی غیر معمولی منصوبہ بندی کے لیے تیار نہیں ہوتی جس کا خمیازہ شہری بھگتتے ہیں، سڑکوں کی شکست وریخت، پلوں کے ٹوٹنے، پشتوں کے بہہ جانے، لاکھوں کروڑوں کیوسک برساتی پانی کے سمندر برد ہونے کی کسی کو کوئی فکر نہیں، کوئی متبادل نظام وضع ہو، شہری، ضلعی اور ملکی سسٹم میں ’’اسٹیٹس کو ‘‘ کے خاتمہ کیلیے آگے بڑھے، پانی، سیوریج اور دیگر مسائل کے حل میں شہری اداروں کی انتظامیہ کو اس کا ادراک ہی نہیں کہ پچھلے برس مون سون بارشوں نے نالوں، مخدوش عمارتوں کے مسائل اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے میڈیا اور سماجی تنظیمیں اور ماہرین آب نے جن صائب اقدامات اور منصوبوں پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
ارباب اختیار سے گزارش کی تھی کہ وہ مون سون بارشوں سے پہلے ملک گیر آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے ملکی افرادی طاقت کو استعمال کرکے سیلابی ریلوں کا رخ ان آبی ذخائر کی طرف موڑ سکتے ہیں، مگر افسوس کہیں بھی برساتی پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے آبی ذخائر کے منصوبوں کی تعمیر پر حکمرانوں نے توجہ نہ دی، اب مون سون کے حالیہ اسپیل نے جو تباہی مچائی ہے اس پر بیان بازی کے لیے ارباب اختیار کو بہت سارے بزر جمہر مل جائیں گے جو سیلاب اور بارش کے پانی کی نکاسی کے ناقص نظام پر لیکچر دیں گے مگر جن ذمے داروں کو نکاسی آب کے مضبوط اور پائیدار سسٹم کی بنیاد آج سے دو دہائی قبل رکھ لینی چاہیے تھی ان کے احتساب کے لیے کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی۔
حکومت مخالف عناصر کا کہنا ہے کہ منصوبے کچھ خاص مقاصد، اہداف اور مفادات کے تحت شروع کیے جاتے ہیں، اور ان منصوبوں کی تکمیل جلد ہو جاتی ہے جن سے نوکر شاہی، انتظامی افسران، اہلکاروں اور سیاسی عناصر کی جیبیں بھر جاتی ہیں، ایسے عناصر ریت میں شجر کاری سے سرسبز و شاداب گلستان اگا لیتے ہیں، لیکن نکاسی آب کے لیے ایک قابل اعتماد سسٹم کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے پر تیار نہیں ہوتے، اس وقت لاہور اور کراچی سمیت ملک کے سیکڑوں شہر نکاسی آب کے نظام کے فقدان سے دوچار ہیں، ذرا سی بارش ہو شہروں و دیہاتوں میں پانی کے جوہڑ اور تالابی منظر نامے جابجا حکومت کے کھوکھلے دعوؤں کو بے نقاب کرتے ہیں، مون سون بارشوں نے اس مرتبہ بھی حکام کے دعوؤں کا منہ چڑانا شروع کردیا۔
گزشتہ دنوں ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے پانی کے جمع نہ ہونے کا یقین دلایا تھا، لیکن میڈیا نے نکاسی آب کے ناقص سسٹم کی پائیداری کے جھوٹ کا پول چند منٹوں میں کھول دیا، شہر قائد میں زندگی کے معمولات درہم برہم ہوگئے، بجلی معطل رہی۔ نالے لبا لب لب بھر گئے، دوسری طرف لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں مون سون کی پہلی بارش سے موسم خوشگوار ہو گیا۔جب کہ دو تین روز سے لاہور میں شدید گرمی، حبس اور گھٹن سے شہریوں کا برا حال تھا، گزشتہ صبح بادلوں کے جم کر برسنے کے نتیجے میں موسم سہانا ہوگیا اور گرمی کا زور بھی ٹوٹ گیا لیکن بارشوں کے باعث نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہوگیا، متعدد علاقوں میں بجلی کے فیڈر بند ہوگئے۔
پنجاب کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی موسلادھار بارش ہوئی۔ شیخوپورہ، فیروز والا، مریدکے، ننکانہ صاحب، واربرٹن، شانگلہ ہل، جنڈیالہ شیر خان، قصور، چونیاں، پتوکی سمیت دیگر علاقوں میں بھی بارش ہوئی۔ شہریوں نے موسم ٹھنڈا ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے، نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہونے اور بجلی بند ہونے کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مون سون میں رین ایمرجنسی کے تحت پنجاب کے پانچ بڑے شہروں راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور لاہور کی واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسیوں کی کوآرڈینیشن کا پلان بنا نے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔
کراچی میں مون سون کے پہلے اسپیل کے تحت ہلکی بارش ہوئی جس سے حبس کا خاتمہ اور گرمی کا زور ٹوٹ گیا، الفلاح سوسائٹی میں 14سالہ حماد کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا، پشاور کے خال دیر اور ملحقہ علاقوں میں تیز بارش سے موسم خوشگوار ہوگیا جب کہ ندی نالے بپھر گئے۔ دریں اثناء دریائے چناب میں متوقع سیلابی ریلے کے پیش نظر کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن نے سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور حافظ آباد کے ڈپٹی کمشنرز سمیت تمام متعلقہ محکموں کو الرٹ رہنے کی ہدایا ت جاری کر دی ہیں۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں بارش کے بعد برساتی نالوں میں طغیانی سے پانی گھروں، دکانوں میں داخل ہوگیا، شہری خود گھروں سے پانی نکالتے رہے کسی حکومتی ذمے دار نے علاقے کا رخ نہیں کیا جب کہ بجلی معطل ہونے سے بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ کراچی میں جل تھل، بجلی نظام درہم برہم، کرنٹ لگنے سے بچہ جاں بحق، سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام، کھمبے سے بندھے قربانی کے2 بیل بھی چل بسے، مون سون کے پہلے اسپیل کا آغاز ہوگیا، یہ سلسلہ 16 جولائی تک جاری رہے گا، محکمہ موسمیات کے مطابق آج بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
گزشتہ روز شہر قائد میں ہونے والی بارش کے باعث اہم شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی متاثر رہی جب کہ کئی مقامات پر بدترین ٹریفک جام رہا، پیر کو شہر میں ہونے والی بارش کے بعد اہم شاہراہوں پر بارش کا پانی جمع ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو گئی، شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، کورنگی روڈ، شاہراہ پاکستان، شہید ملت روڈ، راشد منہاس روڈ سمیت دیگر شاہراہوں پر ٹریفک سست رفتاری سے چلتی رہی، شام کو دفاتر کی چھٹی کے بعد کئی مقامات جن میں آئی آئی چندریگر روڈ، ٹاور، کلفٹن برج، فوارہ چوک، جیل روڈ، ایئرپورٹ، قیوم آباد چورنگی، ملینیم مال، للی برج، صدر ایمپریس مارکیٹ، ناظم آباد، لسبیلہ، گرومندر، حبیب بینک چورنگی، ملیر اور یونیورسٹی روڈ سمیت دیگر مقامات پر ٹریفک جام ہو گیا، ٹریفک جام کے باعث اسپتال جانے والی ایمبولینسوں اور ایئر پورٹ اور کینٹ اسٹیشن جانے والے مسافروں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ترجمان ٹریفک پولیس کے مطابق ٹریفک پولیس کا اسٹاف روڈز پر ڈیوٹی کے لیے موجود رہا، کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے تمام روڈز اور انڈر پاس کی صورتحال کو بذریعہ کیمرہ مانیٹر کیا گیا جب کہ ٹریفک پولیس کی ہیلپ لائن 1915 کا عملہ بھی شہریوں کی رہنمائی کے لیے موجود رہا۔ بارش کے باعث سلپ ہونے سے متعدد موٹر سائیکل سوار بھی زخمی ہوئے، مون سون کی پہلی بوند سے بلدیاتی اداروں کی نااہلی بھی سامنے آنے لگی، بعض سڑکوں اور نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہوتا رہا، پیر کو کراچی میں مون سون کے پہلے اسپیل کے دوران کہیں تیز اور کہیں ہلکی بارش شروع ہوتے ہی انتظامیہ کے دعوے نقش برآب ثابت ہوئے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مون سون بارشوں سے نمٹنے کے لیے ارباب اختیار کو ملکی سیاسی سسٹم میں استقامت پر توجہ دینی ہوگی، سیوریج سسٹم اندر سے گل سڑ گیا ہے، نکاسی آب کی بڑے شہروں میں بنیاد رکھنے کی ابتدا کرنی چاہیے، کراچی اور لاہور میں فرسودہ اور ناکارہ نکاسی آب کی جگہ مکمل نئی لائنیں ڈالی جائیں، اربن کراچی نشیب میں ہے نکاسی نظام فرسودہ ہے، سیوریج لائنیں شہری آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں اور پانی کی نکاسی کے لیے انجینئرنگ ماہرین کو شاہراہوں پر بڑے برساتی نالے کچرے کے ڈھیر میں برسوں سے بند نظر آتے ہیں اور یہی نالے ناجائز تجاوزات اور مارکیٹوں کی تعمیرات کے باعث نکاسی آب میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
المختصر ملکی سیاسی سسٹم کو جب تک استحکام، اسٹیک ہولڈرز میں مفاہمت، سیاسی خیرسگالی اور بلدیاتی نظام قائم نہیں ہو جاتا، شہر کی تعمیر کا کوئی منصوبہ اور شہریوں کے سکون وطمانیت کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں گے، ایک مضبوط جمہوری سسٹم کے سائے تلے ہی مقامی اور صوبائی حکومتیں پھل پھول سکیں گی۔ موجودہ جمہوری سسٹم بوجھ اٹھانے سے معذور ہے، اس لیے مسائل ابل پڑتے ہیں ۔ حکومت مسائل کے حل کے لیے سسٹم اور میکنزم کے مجموعی استحکام اور تعمیر کے بریک تھرو پر توجہ دے، مون سون آتے جاتے رہیں گے بلدیاتی نظام ایک اہم اسپیڈ بریکر ہے، اس کی ضرورت کو نظر انداز کرنے کے نقصانات جاری رہیں گے۔
The post مون سون اور بلدیاتی نظام کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2201685/268