افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہوچکا ہے اور جو بائیڈن کے وعدے کے مطابق اس سال گیارہ ستمبر کو جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کو بیس سال مکمل ہوجائیں گے تو افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا مکمل ہوچکا ہوگا۔
امریکا بظاہر اپنی طویل ترین جنگ کی بساط لپیٹ رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس خطے کےلیے ایک نئی جنگ کا پورا پورا سامان کیے جارہا ہے۔ افغانستان کی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آدھے سے بھی کم علاقہ کابل انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے، جب کہ باقی کا افغانستان کچھ طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہے اور کہیں پر قبضے کےلیے کوششیں جاری ہیں۔
گزشتہ ہفتے طالبان نے تاجکستان اور افغانستان بارڈر پر ایک اہم تجارتی گزرگاہ پر قبضہ کرلیا، جو افغانستان کو سینٹرل ایشیا سے جوڑتی ہے۔ اس قبضے کے ساتھ ہی قندوز سٹی پر بھی طالبان کے قبضے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ افغانستان دوبارہ اس دور میں واپس جارہا ہے جب افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد ایک خلا پیدا ہوگیا تھا اور ایک مضبوط سیاسی حکومت کی عدم موجودگی میں طالبان طاقت کی بنیاد پر حکومت پر قابض ہوگئے تھے۔ آج کا منظرنامہ بھی کچھ ویسا ہی ہے جب نیٹو فورسز افغانستان سے جارہی ہیں، طالبان کی بھی پیش قدمی بڑھتی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر ایک خدشہ شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے کہ جب نیٹو فورسز کا انخلا مکمل ہوجائے گا تو اشرف غنی حکومت چند ماہ میں ہی ڈھیر ہوجائے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا افغانستان کے بارے میں غیر سنجیدہ ہے؟ یا جلد بازی میں اس جنگ سے جان چھڑا رہا ہے؟ یا پھر کسی نئی گیم کی تیاری ہورہی ہے؟ اوباما کے دور میں ہی افغان جنگ سے جان چھڑانے کا کام شروع ہوچکا تھا۔ پھر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آگئے۔ انہوں نے بہت سرعت کے ساتھ اس پر کام کیا۔ طالبان کے ساتھ پیس پراسیس بھی انہوں ہی نے شروع کیا۔ ادھر امریکا میں الیکشن سر پر تھے تو ٹرمپ نے جیسے تیسے طالبان کے ساتھ ڈیل کرکے عوام کے سامنے اپنے کاغذ سیدھے کرلیے۔ یہ ڈیل بہت جلد بازی میں مکمل کی گئی ہے اور اس کا خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ پہلی بات یہ ہے اس پورے پروسیس کے دوران افغان حکومت کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور جو معاہدہ ہوا وہ بھی طالبان اور امریکا کے درمیان تھا اور امریکا نے ایسا کرکے طالبان کو افغان حکومت کے برابرکھڑا کردیا۔ اس معاہدے میں ایک شرط طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی جو امریکا نے تو مان لی مگر افغان حکومت ان کو رہا کرنے کو تیار نہیں ہے، کیوں کہ افغان حکومت اس شرط پر راضی نہیں تھی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ کوئی بھی ایسی تنظیم کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جائے گا جو امریکی سلامتی کےلیے خطرے کا باعث ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ طالبان سے اس طرح کی ضمانت کیوں لی گئی؟ کیا وہ اقتدار میں ہیں یا جن علاقوں پر وہ قابض ہیں ان پر طالبان کی حاکمیت کو امریکا نے تسلیم کرلیا ہے؟ اس شرط نے طالبان کی راہ کو ہموار کردیا ہے کہ اگر وہ مستقبل میں غنی حکومت کو گرا دیتے ہیں تو امریکا طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ کیوں کہ طالبان کے برسر اقتدار ہونے سے ہی وہ امریکا کے اس مفاد کا بہتر تحفظ کرسکتے ہیں۔
امریکا کو افغانستان سے نکلنے میں جلدی ہے، مگر اس نے پاور شیئرنگ کا کوئی پرامن فارمولا نہیں دیا۔ ایک طرف وہ طالبان کو افغانستان کی سیاسی قوت تسلیم کرتے ہیں، دوسری طرف وہ غنی حکومت کی بھی پشت پناہی کررہے ہیں۔ دونوں قوتوں کا کسی ایک نظام کے تحت کام کرنا بہت مشکل ہے۔ طالبان کےلیے جمہوری نظام ناقابل قبول ہے تو دوسری طرف امریکا بھی اسلامی امارات کو قبول نہیں کرسکتا۔ اگر دونوں فریق کسی ایک نظام کو قبول کر بھی لیں تو دو مختلف نظریات رکھنے والی قوتیں، جو ابھی تک ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، کیسے اکٹھے مل کر سسٹم کو چلا پائیں گی؟ امریکا کے انخلا کے بعد اس کا افغانستان میں کردار محدود ہوجائے اور پاور شیئرنگ منصوبے کے بغیر صرف طاقت کے ہی اصول کے تحت کوئی بھی فریق اقتدار میں رہ پائے گا۔ ایک مضبوط سیاسی حکومت کے بغیر افغانستان میں دوبارہ شدت پسندی بڑھے گی، جس کے اثرات اس خطے کے ساتھ ساتھ امریکا تک بھی جائیں گے۔
آنے والے دنوں میں اس پورے خطے کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس کا اظہار نہ صرف پاکستان میں کیا جارہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر مودی سرکار بھی کشمیر کی سیاسی قیادت سے بات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جو پہلے مودی کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ کیوں کہ اگر افغانستان میں شدت پسندی بڑھتی ہے تو اس کا اثر جموں و کشمیر پر بھی پڑے گا، جہاں پہلے ہی حالات قابو سے باہر ہیں۔ اسی کے پیش نظر انڈیا پر پریشر ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرے تاکہ کشمیر کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے۔
افغانستان میں ابھی بھی داعش اور ٹی ٹی پی کے فٹ پرنٹ موجود ہیں، جو مستقبل میں روس، چین اور پاکستان کےلیے خطرے کا باعث ہیں۔ اگر افغانستان کے حالات زیادہ خراب ہوجاتے ہیں تو افغان مہاجرین کا مسئلہ شدت اختیار کرے گا، جس کی تیاری اقوام متحدہ اور امریکا سمیت کسی نے بھی نہیں کی ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ افغانستان میں امریکا فاتح رہا ہے یا طالبان، مگر سر پر منڈلاتا خطرہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post افغان جنگ کی اگلی قسط appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2198166/464