کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’یہ الگ بات کہ ا سے کسی نے گل دستہ نہیں بنایا ورنہ فکر بہار اس مٹی کے خمیر ہی میں شامل ہے‘‘ تاریخ شاہد ہے کہ پشاور کی سرزمین نے زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر دور میں ایسی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جو نہ صرف اس خطے کے لیے بلکہ پورے برصغیر کے لیے باعث افتخار بن گئی ہیں۔
انہی میں سے پشاور کی مٹی سے جنم لینے والے خوبرو اور صدا بہار اداکار دلیپ کمار 11 دسمبر 1922ء کو پشاور شہر کے تاریخی بازار قصہ خوانی کے محلہ خداداد کی ایک گلی فیل خانہ نواب ناصر خان میں پیدا ہوئے، محمد یوسف نام رکھا گیا۔ ان کی والدہ کا نام عائشہ بیگم اور والد کا نام محمد سرور خان تھا، ان کا تعلق اعوان برادری سے تھا، لالہ سرور خان کا پشاور میں پھلوں کی آڑھت کا کاروبار تھا۔
یوسف خان اپنے والدین کی پانچویں اولاد تھے ان کے کل تیرہ بہن بھائی تھے، یوسف خان سے بڑے دو بھائی نور محمد اور ایوب خان تھے جب کہ ان سے چھوٹے تین بھائی ناصر خان، محمد احسن اور محمد اسلم ہیں (ان میں ناصر خان فوت ہو چکے ہیں)، یوسف خان کی چھ بہنوں میں سب سے بڑی سکینہ تھیں جو آپا جی کہلاتی تھیں ان کے بعد بالترتیب تاج، اختر، سعیدہ، فریدہ اور فوزیہ تھیں (ان کی ایک بہن بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں)۔
یوسف خان کے گھر کا ماحول بہت روایتی تھا۔ یوسف خان کے دادا حاجی محمد کو فارسی زبان سے بے حد محبت تھی وہ گھر میں اکثر فارسی بولا کرتے تھے اور اپنے پاس موجود فارسی زبان کی کتابیں ہندکو میں ترجمہ کر کے بچوں کو سنایا کرتے تھے، فارسی شاعری سے محبت کرنے والے دادا سے یوسف خان کو خوب صورت شعر و شاعری کا ذوق ورثے میں ملا تھا، یوسف خان بچپن میں بڑے خوب صورت اور گول مٹول تھے، انہیں دینی تعلیم کے لیے پہلے مدرسہ اور پھر گھر کے قریب ہی انجمن اسلامیہ اسکول خداداد میں داخل کرایا گیا، اسکول کے سامنے ایک احاطے میں بیری کے درخت تھے جن سے وہ سرخ میٹھے بیر چن کر کھاتے تھے۔
جمعے کے دن یوسف خان اپنے دادا کی انگلی پکڑ کر نماز پڑھنے قصہ خوانی بازار کی تاریخی مسجد قاسم علی خان جاتے تھے جس کے تالاب کا پانی سردیوں میں برف کی طرح جم جاتا تھا۔ ان دنوں پشاور میں اتنی کڑاکے کی سردی پڑتی تھی کہ بچوں کے ہونٹ اور چہرے کی جلد پھٹ جاتی تھی۔ ان کی والدہ ان کے چہرے پر سوتے وقت موم لگا دیتی تھیں، ان دنوں ان کے والد کے پھلوں کا کاروبار زوال پذیر ہو چکا تھا چناں چہ وہ پشاور سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے بمبئی کی کرافورڈ مارکیٹ میں ایک دکان حاصل کر کے نئے سرے سے پھلوں کے کاروبار کا آغاز کیا۔
قسمت نے یاوری کی بمبئی میں ان کا کاروبار خوب جم گیا تو انہوں نے پشاور سے اپنے بیوی بچوں کو بمبئی بلوا لیا، یوسف خان کے دادا انہیں بمبئی چھوڑنے گئے تھے۔ یہ 1927-28ء کا دور تھا۔ تاہم یوسف خان کے دادا چند دن بعد ہی پشاور واپس آگئے تھے، بمبئی کی بلند و بالا بلڈنگوں اور شور شرابے والے شہر میں ان کا دم گھٹتا تھا۔
بمبئی میں پہلے وہ ناگ دیوی اسٹریٹ میں واقع ایک بلڈنگ کی چوتھی منزل پر رہنے لگے۔ بعد میں یہ گھرانا دیولالی کے علاقے میں منتقل ہوگیا جہاں ان کے والد نے ان کے لیے ایک شان دار بنگلہ بنوایا تھا (بعد ازآں انہوں نے ورلی میں بھی ایک گھر بنوایا)، یہیں پر یوسف کی دوستی اپنی عمر سے بڑی ایک خوب صورت لڑکی کلثوم سے ہوئی جس نے انہیں پیڑوں سے کچے آم توڑنے اور بھڑوں کو پکڑ کر ان کے ڈنک نکالنے کا طریقہ سکھایا تھا۔
بمبئی میں یوسف کو بائیکلا کے انجمن اسلام ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا وہیں پر ان کی دوستی اپنے ہم جماعت مقری سے ہوئی (جو بعد ازآں انڈین فلموں کا نام ور کامیڈبن بنا) گرمیوں کی چھٹیوں میں یوسف اپنے بہن بھائیوں کے ہم راہ پشاور آجاتے تھے، سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یوسف نے بمبئی کے ولسن کالج میں داخلہ لیا جہاں ان کے بچپن کے دوست راج کپور ان سے دو سال جونیئر تھے۔
یوسف کو شروع سے فٹ بال اور کرکٹ سے بے حد دل چسپی تھی، تاہم ولسن کالج کے اینگلو انڈین لڑکوں نے انہیں کبھی کھیلنے کا موقع نہ دیا۔ البتہ جب وہ خالصہ کالج میں گئے تو کالج کی ٹیم کی جانب سے خوب کھیلنے کا موقع ملا۔ یوسف نے گریجویشن کے بعد اپنے والد کے کاروبار میں ان کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ادھر حالات نے پھر پلٹا کھایا، دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے ان کے والد کا کاروبار زبردست گھاٹے کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ پشاور میں پھلوں کے باغات سے تازہ پھل منگواتے تھے لیکن جنگ کی وجہ سے ریلوے ویگنیں نہ ملنے سے ان کا سارا فروٹ اسٹیشن پر پڑا رہنے سے گل سڑ جاتا تھا۔
بمبئی پہنچنے پر سارا فروٹ ضائع کرنا پڑتا تھا۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ انہیں اپنا ورلی والا بنگلہ بھی فروخت کرنا پڑ گیا۔ یوسف کے والد کا خیال تھا کہ وہ تعلیم مکمل کرکے ان کا بزنس سنبھال لیں گے، لیکن یوسف گھر والوں کو بتائے بغیر پونا چلے گئے اور سولجرز کلب کی کینٹین میں36 روپے ماہوار پر ملازم ہوگئے، کینٹین کے پیچھے سوئمنگ پول تھا جہاں گورے نہانے آتے تھے اور سنگترے، موسمیاں اور کیلے وغیرہ ایک دوسرے کی طرف پھینکتے تھے۔ یہ پھل وہ باہر سے لاتے تھے۔
یوسف نے اپنے انچارج آفیسر ریورنڈ فادر ایپل بام کی اجازت سے سوئمنگ پول کے کنارے ان فوجیوں کے لیے ایک بڑی میز لگوا دی، اس میز پر ایک سفید کلف لگی ہوئی چادر ڈالی اور اس پر تازہ فروٹ کی ٹوکریاں سجا دیں۔ پہلے دن ڈھائی بجے تک چالیس روپے کا فروٹ باسٹھ روپے میں بک گیا۔ انہیں پورے بائیس روپے کا منافع حاصل ہوا اس طرح وہ اب اپنی تنخواہ کے علاوہ ساڑھے چھ سو روپے زائد کمانے لگے تھے۔
ہندی سنیما میں شہنشاہ جذبات کے لقب سے مشہور دلیپ کمار کی شہرت اور مقبولیت کے بارے میں اداکار امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ ہندوستانی فلموں کی تاریخ دو حصوں میں لکھی جائے گی، ایک دلیپ کمار سے پہلے اور دوسرا حصہ دلیپ کمار کے بعد کی تاریخ پر مبنی ہوگا۔
1943 میں دلیپ کمار کی ملاقات بمبئی ٹاکیز کے مالکان دیویکارانی اور ان کے شوہر ہمانشورانی سے ہوئی جنھوں نے انہیں اپنی فلم کے مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کرلیا اور اس طرح 1944 میں ریلیز ہونے والی فلم جواربھاٹا سے بولی وڈ میں ڈیبیو کیا۔ 1947 میں آئی فلم ’’ملن‘‘ ناکام ثابت ہوئی جب کہ شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں فلم ’’جگنو‘‘نے دھماکا خیز کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کی ہیروئن شوکت رضوی کی شریک حیات اور بعد میں ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی نورجہاں تھیں۔
سال 1952 میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم ’’آن‘‘ میں دلیپ کمار ایک زبردست ٹیکنی کلر کردار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن اس کے باوجود بعض نقادوں کا ماننا تھا کہ وہ دوسری قسم کے کرداروں کو ادا نہیں کرپائیں گے۔1954 سے لے کر 1958 تک ’’جوگن، آرزو، بابل، ترانہ، داغ، دیدار، دیوداس، مدھومتی اور یہودی‘‘ جیسی ناقابل فراموش فلموں میں اپنی المیہ اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں ’’ٹریجڈی کنگ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
1960 میں فلم ’’کوہ نور‘‘ کے ایک نغمہ ’’مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے‘‘ کو فلمانے سے قبل انہوں نے اداکاری میں حقیقت کا عنصر پیدا کرنے کے لیے کڑی محنت کرکے ستار بجانا بھی سیکھا اور اس کوشش میں ان کی انگلیاں تک زخمی ہوگئیں۔ قبل ازیں نیا دور کے لیے بھی اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے انہوں نے باقاعدہ تانگا چلانے کی تربیت حاصل کی۔
1960 میں تاریخی فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ میں شہزادہ سلیم کے کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا اور وہ اپنی لازوال اداکاری سے مداحوں کے دلوں پر راج کرنے لگے۔
1966 میں رشیدکاردار کی ہدایت میں وحیدہ رحمان کے ساتھ فلم ’’دل دیا درد لیا‘‘ منظرعام پر آئی۔ یہ فلم کام یاب رہی۔ 1967 میں جلوہ گر ہوئی فلم ’’رام اور شیام‘‘ کو ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس فلم میں ان کے مقابل وحیدہ رحمان اور ممتاز تھیں۔ اس فلم کو نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ متعدد دفعہ اس کی نقل بھی کی گئی جیسے ہیمامالنی کی سیتا اور گیتا، سری دیوی کی چالباز اور انیل کپور کی کشن کنہیا وغیرہ شامل ہیں۔ رام اور شیام کی ریلیز سے قبل 1966 میں انہوں نے ’’سائرہ بانو‘‘ کے ساتھ شادی کرلی۔
سن 80 کی دہائی میں یوں تو ان کی بہت سی فلمیں آئیں مگر ان کی اہم ترین فلمیں رمیش سپی کی ہدایت میں ’’شکتی‘‘ تھی جس میں ان کے مقابل امیتابھ بچن تھے، دوسری1984 میں یش چوپڑہ کی ہدایت میں والی فلم ’’مشعل‘‘ اور تیسری فلم1986 میں وطن پرستی پر مبنی ’’کرما‘‘ ہے جس کے ہدایت کار سبھاش گئی تھے میں۔ اس فلم میں ان کا فن سر چڑھ کر بولا۔
نوے کی دہائی میں ’’سوداگر‘‘ دیکھنے کے قابل ہے جس میں ان کے مقابل ہندی سینما کے دوسرے کمار ’’راج کمار‘‘ تھے۔ 1998 میں فلم ’’قلعہ‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد دلیپ کمار نے فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔
دلیپ کمار نے سب سے زیادہ تعداد میں ایوارڈز جیتنے والے انڈین اداکار کا گینز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ انہیں ہندی سنیما کے سب سے بڑے اعزاز ’’دادا صاحب پھالکے‘‘ سے نوازا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے پدم بھوشن ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ علاوہ ازیں وہ پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز نشانِ پاکستان سمیت لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز اور دیگر بے شمار فلمی ایوارڈز سے بھی سرفراز ہوئے۔
The post قصہ شروع ہوتا ہے قصہ خوانی بازار سے شہنشاہِ جذبات کی تابندہ زندگی کا مختصر تذکرہ appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2199167/24