پارمنائی ڈیزکہتا ہے ’’ جو کچھ بھی کہا جاتا ہے اور سوچا جاتا ہے وہ ہے ،کیو نکہ یہ ممکن ہے کہ وہ موجود ہو اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جو چیز نہ ہو وہ وجود رکھتی ہو کوئی شے جو سو چی جاسکتی ہے اور جس کی خاطر سوچا جاسکتا ہے دونوں ایک ہیں کیونکہ تم کسی شے کے نہ ہونے پر کچھ سوچ نہیں سکتے۔ ‘‘ عظیم یونانی فلسفی ڈیمو قریطس نے محسوس کیا تھا کہ وہ کسی شے کی حقیقت کو جاننا ایرانیوں کی سلطنت کو حاصل کرنے سے زیادہ چاہتا ہے۔
آزادی ، تحفظ ، پیٹ بھر کے کھانا ، سکون ، مسرت ، ٹھکانہ اور لذتیں انسان کے اولین خوابوں میں سے ہیں۔ انسان ان ہی خوابوں کے سہارے مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ ان ہی خوابوں کے ذریعے اس نے تمام مشکلات ، مصیبتوں، پریشانیوں، خوف اور بھوک کا مقابلہ کیا ان ہی خوابوں نے اسے کبھی چین سے رہنا نہ دیا، ان ہی کی وجہ سے ایک وحشی انسان سے ایک مہذب انسان نے جنم لیا۔ شروع شروع میں اس کے ان خوابوں کو وحشی جانورکچلتے رہے۔
آگے چل کر انھیں وحشی انسان روندتے رہے ، لیکن انسان اپنے ساتھ ساتھ ان خوابوں کی بھی حفاظت کرتا رہا۔ قدیم یونانیوں کو علم تھا کہ انسانوں کی شروعات انتہائی نچلی بلکہ وحشیانہ سطح سے ہوئی ہے، پروٹا گورس 415 قبل از مسیح نے انسانوں کی فطرت پر کامیابی کو دیوتا کی جانب سے طے کردہ طریقوں پر متنج قرار دیا تھا۔ دیوتا زیوس نے ہر مس کو زمین پر اس حکم کے ساتھ روانہ کیا تھا ’’ میری جانب سے انھیں قانون عطا کرو اور بیماریوں کی مانند ان انسانوں کو نابود کردو جوکہ شرافت ، سلیقہ مندی اور عدل کو اپنا نہیں سکتے۔ ‘‘
تصور یہ تھا کہ انسانوں کی تعلیم اور ان کی ترقی قوانین کے ذریعے ہوتی ہے اور تہذیب کا دارومدار اسی پر ہے کیونکہ اس کے ذریعے اخلاقی اور سماجی خو بیاں عام ہوتی ہیں اور ایک اچھے اور بہتر انسان کا جنم ممکن ہو جاتا ہے پھر ان میں سے ہی اچھے اور بہتر حکمران مہیا ہوتے ہیں۔
ہومرکے نزدیک ایک اچھے اور بہتر انسان کا تصور چار بنیادی خصوصیات پر منحصر تھا شجاعت ، عفت ، عدل اور دانش ، ایک انسانی زندگی پر تین درس گاہیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ (اول) اس کا اپنا گھر( دوم ) جہاں سے وہ علم حاصل کرتا ہے۔ (سوئم) اس کا سماج ۔ دیگر درس گاہوں کے مقابلے میں اس پر سب سے زیادہ اثر اس کے سماج کا ہوتا ہے۔
آئیں! اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستانی سماج ایک اچھے اور بہتر انسان کا جنم دینے میں کیوں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ آیا یہ سماج برقرار رکھے جانے کے قابل ہے یا پھر اس سے ایک نیا سماج تشکیل دینا چاہیے۔ ہمارے سماج میں کروڑوں بچے ایسے گھروں میں پیدا ہورہے ہیں ، جہاں پہلے ہی روز ان کی ملاقات ، جہالت ، گندگی، بھوک و افلاس ، بیماریوں اور بدترین غربت سے ہوتی ہے ، جیسے جیسے وہ بڑھتے جاتے ہیں تو پھر ان کی ان سے پکی دوستی ہوجاتی ہے ایسی پکی دوستی کہ دونوں پھر ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ ماں باپ ، بڑے بہن بھائیوں کی دھتکاریں ، گالیاں سنے بغیر ان کو نیند نہیں آتی ہے۔
فاقوں ،گندا اور زہریلا پانی پی پی کر گندگیوں میں کھیل کر ، امیروں کی نفرت انگیز نگاہیں دیکھ دیکھ کر جب وہ ہو ش کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ان کے اندر غصے ، نفرت ، وحشت کی آگ روشن ہوچکی ہوتی ہے جس کو وہ پوری عمر پھر بجھنے نہیں دیتے ہیں۔ سماج کی ہر اچھی چیز کو اپنے سے بہتر لوگوں کو اور امیروں کو وہ روز اپنے اندر کی آگ میں جلنے کے لیے تصور میں پھینکتے رہتے ہیں اور ان کے جلنے سے وہ تسکین حاصل کرتے ہیں ۔ یہ ہے ہمارے سماج کے کروڑوں انسانوں کی پہلی درس گاہ۔
آئیں ! دوسری درس گاہ کا جائزہ لیتے ہیں ، ان انسانوں کی اکثریت کوکبھی دوسری درس گاہ کی شکل تک دیکھنا نصیب نہیں ہوتی ہے، ان میں سے ایک چھوٹی سی اقلیت پیلے اسکولوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی ہے، ان پیلے اسکولوں میں ان کی ملاقات اپنے ہی جیسے اور انسانوں سے ہوجاتی ہے۔
بھوک ، افلاس ، فاقوں ، بیماریوں ، جہالت ، گندگیوں کا آپس میں ملن ہوجاتا ہے ۔ مایوسیاں ، محرومیاں ، غصہ اور نفرت آپس میں گلے ملتے ہیں۔ علم حاصل کرنا تو دور کی بات یہ سب آپس میں مل کر اپنے اندر جلنے والی آگ کو اور روشن کردیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ زہریلے ، نفرت آلود ، تیزاب میں بھیگے ہوئے انسانوں کے غول کے غول اپنی تیسری درس گاہ یعنی سماج میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں ان سے پہلے کروڑوں انسان غصے اور نفرت کی آگ کے آلاؤ سر پہ لا دے ، لادے پھر رہے ہوتے ہیں اور یہ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں یہ سب کروڑوں انسان نہ تو قصور وار ہیں اور نہ ہی گناہ گار۔ ان سب کا قصور اور گناہ فقط یہ ہے کہ وہ ایک ایسے سماج میں پیدا ہوئے ہیں جس نے کچھ گھرانوں کو اجالے اور باقیوں کو اندھیرے سونپے ہیں ، وہ اندھیرے کروڑوں انسانوں کو ایسا روگ اور کوڑھ دے رہے ہیں جو ان کے وجود میں مسلسل رینگ رہے ہیں، ان کو جسموں اور ذہنوں کو چاٹ رہے ہیں۔
ان کی بستیوں میں اس کی سڑاند پھیل رہی ہے، جب وہ اپنے جسموں کو غسل دیتے ہیں تو غلاظتیں دور تک پہنچتی ہیں یہ سب کے سب اس کوڑھ کو چاٹتے اور اسی سڑاند کو اگلے رہتے ہیں اور جب تک ان کے جسم اندر سے اپنے اس کوڑھ اور روگ کو اگل نہیں دیں گے وہ اسی طرح سڑتے رہیں گے اسی طرح اور کوڑھی ہوتے رہیں گے اور زہر آلود ہوتے رہیں گے تیزاب میں اپنے آپ کو غسل دیتے رہیں گے۔
یہ سب عظیم ادیب فرانزکافکا کی سب سے طویل کہانی ’’ کایا کلپ ‘‘ کے مرکزی کردار ’’ سامسا ‘‘ بن چکے ہیں ’’ جو بالاخر اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ انسان سے تعلق انسانی وجوہ کی بدولت ہی ہے کیونکہ جوں ہی اس کے خاندان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ انسان کے بجائے ایک بدبو دارکیڑے میں منتقل ہوچکا ہے تو ان سب کا رویہ غیر انسانی ہوجاتا ہے وہ اس کے کمرے میں طرح طرح کی غلاظتیں اور گندگیوں کے ڈھیر پھینکتے ہیں اس کے بدبو دار جسم کے قریب جانے سے گھبراتے ہیں اور اس پر تھوکتے ہیں اور اسے حیوان کی طرح گلا سڑا کھانا اور گندہ پانی گندے برتنوں میں پینے کے لیے دیتے ہیں ہر شخص اس سے نجات پانے کی ترکیبیں سوچتا ہے۔‘‘ ایسے سماج میں ایک اچھے اور بہتر انسان کے جنم کا تصور کرنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔
ایسا سماج صرف اور صرف بیماریوں، مایوسیوں ، انتہا پسندوں ، اخلاقی طور پر دیوالیہ اور برباد انسانوں کو جنم دیتا ہے ایسے سماج میں اچھے حکمرانوں کا تصور بھی گناہ ہی کے زمرے میں آتا ہے لہذا ایسے سماج میں نالائق اور نااہل حکمران مخصوص طبقوں سے خود بخود مسلط ہوجاتے ہیں۔ ان کے آنے کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ سماج میں کوئی بھی بہتری یا اچھائی نہ آسکے، کیونکہ وہ عام انسانوں کے مفادات کے نہیں بلکہ مخصوص طبقات کے مفادات کے رکھوالے اور نگہبان ہوتے ہیں۔
اسی لیے ان کی سوچ ، اقدامات اور طرز عمل قدیم وحشی انسانوں جیسا ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ عام انسانوں کے خواب روندتے اورکچلتے رہتے ہیں پھر عام انسانوں کے خواب صرف اور صرف اپنی سانسیں برقرار رکھنا رہ جاتا ہے اور وہ اپنی ساری تگ و دو زندہ رہنے پر مرکوزکردیتے ہیں اور گندگیاں خوشی خوشی کھاتے رہتے ہیں پھر وہ ملک ، حکومت اور سماج کے تمام معاملات سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ، پھر سماج میں کوڑھ اور روگ اور تیزی سے پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔
The post روندے اور کچلے ہوئے خواب appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2196947/268