پشاور کے قصہ خوانی بازار میں بہت سے قصہ گو آئے اور گزر گئے لیکن ایک قصہ گو ایسا بھی تھا جو وہیں پیدا ہوا، وہاں سے ہندوستان گیا اور اب چند دنوں پہلے اس دنیا سے گزر گیا ہے۔ شاید اب کوئی قصہ گو وہاں پیدا نہ ہواور وہاں سے ہندوستان نہ جائے۔ لیکن اس داستان گو کے کیا کہنے تھے۔
سات زبانیں بولتا ہوا۔ جی چاہے تو اسے نابینا گانے والا بنا دیجیے اور جی چاہے تو مغل اعظم کا بیٹا شہزادہ سلیم بن کر تخت پر بیٹھ جائے۔ انار کلی سے عشق کرے اور اس کے عشق کا بھگتان ایک کنیز ادا کرے جو شہزادے سے کہیں بڑی نکل کر آتی ہے۔
یہ تھے ہمارے دلیپ کمار، پشاور میں پیدا ہوئے اورجنھوں نے ممبئی میں اپنے پران تیاگے۔ وہ اس گنگا جمنی تہذیب کے شاید آخری نمایندے تھے جس نے جدوجہد آزادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے دل پر جھیلا، پنڈت نہرو ان کے آئیڈیل تھے۔ وہ ایک نفیس، سیکولر اور شیریں بیان انسان تھے۔
جس زمانے میں وہ جوان ہوئے، وہ ایک قیامت کا زمانہ تھا۔ اس میں خود کو متوازن رکھنا اور کسی ایک فرقے سے جوڑ لینا بہت آسان تھا۔ وہ جنم جنم کے پشاوری تھے لیکن انھوں نے تقسیم کے بعد مڑ کر اپنے پیدائشی شہر کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ اور ان کے سارے بھائی بہن ہندوستان میں رہے اور کڑے سے کڑے وقت میں انھوں نے اس ملک کو پیٹھ نہیں دکھائی جس نے انھیں اپنی پہچان دی تھی۔ ہندوستانی مسلمان پر برا وقت آیا لیکن انھوں نے اس وقت بھی ہمت نہیں ہاری۔ انھیں ہندوستان میں تمام اعلیٰ ترین اعزازات ملے۔ پدم شری، پدم وبھوشن،آٹھ فلم فیئر ایوارڈ، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ۔ پاکستان آئے تو انھیں نشان پاکستان سے نوازا گیا۔ پشاور گئے تو ان کے شہر نے ان کے راستے میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیا۔
انھیں اس وقت دلی صدمہ پہنچا جب بابری مسجد کی بے حرمتی ہوئی لیکن انھوں نے زبان سے اف نہ کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کی پہلی فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ کی طرح کا واقعہ ہے۔ دلیپ صاحب کی یہ پہلی فلم ناکام ہوئی تھی لیکن جس طرح وہ آگے بڑھتے گئے ، اسی طرح انھیں یقین تھا کہ یہ برا وقت گزر جائے گا اور سوپچاس برس میں یہ دیوانگی بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی، اسی طرح پنڈت نہرو کے آئیڈیل ازم اور سیکولرا زم کی جیت ہوگی۔
شاید ان کا یہی ایمان تھا جس نے انھیں متزلزل نہیں کیا، وہ اپنی جگہ کھڑے رہے اور چند دنوں پہلے ان کا انتقال ہوا تو مہاراشٹر کی ریاست نے انھیں ہندوستانی پرچم میں لپیٹ کر، سلامی دے کر اور ہندوستان کا ایک عظیم بیٹا کہہ کر اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ شاہ رخ خان، امیتابھ بچن، عامر خان اور انیل کپور کے علاوہ بے شمار لوگ انھیں آخری سلام کرنے آئے اور امیتابھ بچپن نے یہ کہہ کر بہت سے لوگوں کی آنکھیں نم کردیں کہ ہندوستانی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں دلیپ کمار سے پہلے اور دلیپ کمار کے بعد کی بات کی جائے گی۔ بچن صاحب کا مطلب یہ تھا کہ جیسے ہم تاریخ میں قبل مسیح اور بعد مسیح کی بات کرتے ہیں۔
دلیپ صاحب کی زندگی کو سیکڑوں لوگ چھو کر گزرے۔ خواص بھی اور عوام بھی۔ ان کا سلوک سب کے ساتھ یکساں رہا۔ ان کے ڈاکٹر شری کانت گوکھلے نے ان سے تعلق کے بارے میں لکھا کہ وہ خداداد ذہانتوں سے مالا مال ہونے کے علاوہ جذبہ ہمدردی اور ہر ایک کے لیے عزت و احترام کی سوغات رکھتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ بچے یا بوڑھے جوناکافی لباس میں ہوتے ہیں اور اگر سگنل پر ان کی گاڑی رکی ہوئی ہوتو کھڑکی پر دستک دے کر انھیں اپنے طرف متوجہ کرتے ہیں اور اپنے بے اندازہ محبت اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ایسے موقعوں پر میں نے کبھی انھیں ان لوگوں کو جھڑکتے نہیں دیکھا۔ وہ اداس ہوجاتے ہیں اور انھوں نے اکثر مجھ سے پوچھا کہ ڈاکٹر بتاؤ ان لوگوں کے لیے میں واقعی کیا کرسکتا ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ پانچ دس روپے سے وہ ان کی زندگی نہیں بدل سکتے۔ وہ ان کے لیے صاف ستھری رہائش گاہ، پیٹ بھر کر کھانا اور تعلیم مہیا کرنا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ میں اپنی بیوی کے ساتھ چند دنوں کے لیے چھٹی منانے جارہا تھا ۔ انھیں معلوم ہوا تو بہت خوش ہوئے اور شام کو ان کی طرف سے ایک لفافہ آیا جس میں ان کا لکھا ہوا ایک مختصر سا خط تھا کہ یہ آپ کی چھٹیوں کو زیادہ خصوصی بنانے کے لیے ہے۔
میرے لیے یہ ناقابل یقین تھا۔ ڈاکٹر نے ان کے ساتھ ریل کے سفر اور اسٹیشن پر اتر کر ایک ایرانی کے ہوٹل میں صبح سویرے ناشتہ کرنے کا منظر لکھا ہے۔ ڈاکٹر گوکھلے نے لکھا ہے کہ دلیپ جی کو پہچان کر چند منٹ میں بہت سے لوگ جمع ہوگئے، وہ انھیں دیکھ کر نہال تھے۔ بھیڑ اتنی بڑھی کی پولیس آگئی۔
پولیس افسر نے دلیپ صاحب سے کہا کہ وہ پچھلے دروازے سے نکل جائیں لیکن دلیپ صاحب مسکرائے اور اپنی میز سے اٹھ کر لوگوں کی طرف گئے، ان کو دھنے واد کہا، ہاتھ ہلایا اور واپس آکر میز پر بیٹھ گئے اور وقتاً فوقتاً انھیں ہاتھ ہلاتے رہے۔ ہجوم نے کسی طرح بھی کوئی شور و غوغا نہیں کیا اور انھیں اپنی طرف متوجہ رکھنے کے لیے ان کی فلموں کے گیت گاتا رہا۔
وہ مشاعروں میں شرکت کرتے، سائرہ بانو ان کے ساتھ ہوتیں۔ وہ ایسی شستہ اور مرصع زبان میں بات کرتے کہ لوگوں کی ہتھیلیاں تالیاں بجا بجا کر سرخ ہوجاتیں۔ لارنس آف عریبیہ بن رہی تھی تو ڈیوڈ لین نے انھیں اس میں اداکاری کی دعوت دی لیکن دلیپ جی نے معذرت کرلی۔
ٹام الرٹ ان ہی دنوں پونے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ سے ڈگری لے کر نکلا تھا۔ اس نے دلیپ جی سے اچھی اداکاری کا راز پوچھا تو دلیپ جی نے کہا ’’شعرو شاعری‘‘۔ ٹام الرٹ کی سمجھ میں ان کی بات نہ آئی لیکن برسوں بعد جب ٹام نے دلیپ جی کے استاد سے اردو زبان اور شاعری سیکھی تو وہ راز سمجھا اور پھر اس نے اپنی خود نوشت بھی اردو میں لکھی۔
یوں تو دلیپ صاحب پربہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا لیکن ہندوستان سے اردو کی نامور ادیب رخشندہ جلیل نے ان پر ایک مختصر مگر پر اثر تاثرات لکھے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ وہ اردو، فارسی اور ہندی ادب کے کیسے شیدا تھے اور ان کے یہاں کتابوں کا کیسا شاندار ذخیرہ تھا۔ اسی طرح ہماری نرم گفتار جگنو محسن نے ان پر لگ بھگ آدھے گھنٹے گفتگو کی اور کوزے میں دریا سمیٹ دیا ہے۔ دلیپ جی کو دو شعر بہت پسند تھے جنھیں انھوں نے اپنی آپ بیتی میں بھی لکھا ہے:
سکونِ دل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ، کہاں تمام کروں
The post قصہ خوانی بازار کا آخری قصہ گو appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2201704/268