کیا آپ تھابنگ موروئے کو جانتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ 99 فیصد افراد کا جواب ناں میں ہی ہوگا، چلیں میں بتا دیتا ہوں یہ کرکٹ جنوبی افریقہ کے چیف ایگزیکٹیو تھے،انھیں اپنی طاقت پر بڑا غرور تھا، وہ چونکہ سیاہ فام تھے لہذا انھیں چھیڑنا نسلی امتیاز کا مسئلہ بن جاتا اس لیے غلطیوں کو بھی مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا، ملکی کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کے بعد وہ سمجھنے لگے کہ اب جو چاہیں کرسکتے ہیں، ایسے میں ایک غلطی کرگئے۔
پاکستان ہو یا جنوبی افریقہ سرپھرے صحافی ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں جو سچی باتیں کرتے ہیں مگر ظاہر ہے ارباب اختیار کو وہ پسند نہیں آتیں،ایسا ہی بعض افریقی صحافیوں کے ساتھ ہوا، موروئے نے غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے بعض مضامین کی بنیاد پر5 سینئر صحافیوں کی میڈیا ایکریڈیشن منسوخ کردی، وہ سمجھ رہے تھے کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن غلط شاٹ کھیل گئے،آپس میں پیشہ ورانہ رقابت کو بھول کر تمام جنوبی افریقی صحافی یکجا ہو گئے، انھوں نے بورڈ کے خلاف احتجاج شروع کیا، اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔
موروئے نے میڈیا سے معافی مانگی مگر معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا،ان کی بے ضابطگیاں بھی سامنے آ گئیں، انھیں پہلے معطل اور بعد میں برطرف کر دیا گیا۔ جنوبی افریقہ اور پاکستان کے حالات میں بڑا فرق ہے، وسیم خان پی سی بی کے سی ای او ہیں، ان کے خلاف کسی مالی بے ضابطگی کے الزامات بھی نہیں،البتہ کام کرنے کے انداز پر ضرور سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا سے ان کی کبھی نہیں بنی، جب انھوں نے غلطیاں کیں تو صحافیوں نے نشاندہی کی جس پروہ ناراض ہو گئے، وسیم نے نیا انداز اپنایا اور بعض صحافیوں کی نام لے کر تعریفیں کرنے لگے جس سے الٹاان بیچاروں کی ساکھ خراب ہوئی کہ چونکہ یہ پی سی بی کے غیراعلانیہ ترجمان کا کام کرتے ہیں اس لیے تعریفیں ہوتی ہیں۔
سی ای او پہلے بھی میڈیا کو بْرا بھلا کہتے رہے ہیں لیکن اس بار تمام حدیں پار کر گئے، انھوں نے پاکستانی صحافت کو سرکس اور صحافیوں کو جوکر، بلیک میلر اور مافیا قرار دے دیا، پھر ایک پریس ریلیز میں اپنے الفاظ پر ’’اظہار افسوس‘‘ کر کے سمجھے کہ معاملہ ختم ہو گیا، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صحافیوں میں اتحاد نہیں، جب نجم سیٹھی کے دور میں مجھے اور مرزا اقبال بیگ کو ایکریڈیشن کارڈ دینے سے انکار کیا گیا تو سوائے ہمارے ادارے کے کسی نے ساتھ نہ دیا تھا۔
اس بار معاملہ الگ تھا، جن صحافیوں کو وسیم نے نشانہ بنایا وہی ڈھائی سال سے انھیں ملکی کرکٹ کیلیے مسیحا بنا کر پیش کر رہے تھے،اتنی باتوں کے باوجود کچھ نہ ہوا،اپنے ملک انگلینڈ میں تو وہ کسی کو ایسا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر یہاں سب کی ’’سولو فلائٹ‘‘ کا فائدہ اٹھا لیا، افسوس آج ماحول ہی ایسا بنا دیا گیا جس کی وجہ سے ہر کوئی میڈیا کو بْرا بھلا کہتا ہے، لوگ یہ نہیں سوچتے کہ میڈیا کی وجہ سے ہی ان کے کتنے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
ویسے وسیم خان اتنی مایوسی کا شکار کیوں ہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاید انھیں نظر آ گیا کہ اگلے سال معاہدے میں توسیع نہیں ملے گی یا پھر وہ واپسی کیلیے راہ ہموار کر رہے ہیں تاکہ انگلینڈ جا کر کہہ سکیں کہ میں تو کام کرنا چاہتا تھا مگر پاکستانی میڈیا نے نہیں کرنے دیا، افسوس موجودہ بورڈ میں میڈیا کی آواز کومسلسل دبایا ہی گیا،کنٹرول پالیسی کے بعد اب نوبت یہ آ گئی کہ ٹاپ لیول کا آفیشل غیراخلاقی زبان استعمال کر رہا ہے، پی ایس ایل کے معاملات خراب ہونے پر جو تنقید ہوئی سی ای او شاید اس سے ناراض تھے، مگر آپ بتائیں کیا انھیں اپنی ٹیم کے ساتھ شروع سے ابوظبی میں نہیں ہونا چاہیے تھا،اتنی بدانتظامی نظر آئی تو اس حوالے سے میڈیا نے کیا غلط رپورٹ کیا؟
ان کے ’’ورک فرام برطانیہ ہوم‘‘ کی پالیسی کیا درست تھی؟ پی ایس ایل جیسا برانڈ کبھی ہمارے ملک میں سامنے نہیں آیا، اب اس کو مزید آگے بڑھانا پی سی بی کا ہی فرض ہے مگر افسوس اسے بدانتظامی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، البتہ ایونٹ میں کرکٹ اتنی اچھی ہوتی ہے کہ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں، اب آپ دیکھیں کہ جتنی غلطیاں ہوئیں ہم اس پر بات نہیں کر رہے بس کھیل پر فوکس ہے، یہی اس لیگ کی خوبی ہے،کراچی میں کوویڈ کیسز کی وجہ سے ایونٹ کو روکنا پڑا تواس میں سو فیصد بورڈ ہی ذمہ دار تھا، اس وقت میڈیا نے یہی کہا، اب برطانوی کمپنی ریسٹراٹا بائیو ببل کو سنبھال رہی ہے، تمام کھلاڑیوں اور آفیشلز کی ویکسی نیشن ہو چکی، ابوظبی کے سخت قوانین کی وجہ سے سب خود بھی احتیاط کر رہے ہیں اس لیے ایونٹ بااحسن انداز میں جاری ہے۔
ایسا پاکستان میں بھی کر لیتے تو یہاں بھی سب ٹھیک رہتا،اگر یو اے ای میں میچز کا کوئی پلان بی پہلے سے موجود ہوتا تو شاید ویزے وغیرہ کے مسائل بھی سامنے نہ آتے، امید ہے کہ پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا اچھے انداز میں اختتام ہوگا لیکن اس کے بعد بورڈ حکام کو خود اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ بہتری آئے، میڈیا کوئی آپ کا دشمن تھوڑی ہے، کسی کو خوامخواہ کی برائیاں کر کے کیا ملے گا؟ ہم تو نجم سیٹھی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور آپ کے بعد بھی جو آئے گا۔
اس کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کریں گے، مگر اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو تنقید کو مثبت انداز میں لے اور اصلاح کی کوشش کرے، پی ایس ایل کو مسلسل دو برس درمیان میں روکنا پڑا،فرنچائزز بورڈ کے خلاف عدالت تک چلی گئیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انتظامی طور پر بڑے مسائل موجود ہیں، انھیں حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، یہ لیگ پاکستان کی ہے اسے ہم سب کو مل کر مزید آگے بڑھانا ہے،بورڈ حکام انا کو پس پشت رکھیں اور لیگ سمیت پاکستانی کرکٹ کو بہتر بنائیں، اس کام میں سب آپ کے ساتھ ہیں۔
نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔
The post پی ایس ایل میچزنے انتظامی مسائل بھلا دیے appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2189125/16